Tuesday 6 February 2018

مَیں نے ہر بار نَئی آنکھ سے دیکھا تُجھ کو

مَیں نے ہر بار نَئی آنکھ سے دیکھا تُجھ کو
..مُجھ کو ہر بار نَیا عِشق ہُوا ہے تُجھ سے

نا یہ زندگی میری زندگی نا یہ داستاں میری داستاں

نا یہ زندگی میری زندگی نا یہ داستاں میری داستاں
میں خیال و وہم سے دور ہوں مجھے آج کوئی سدا نا دے

گر یہی رونا ہے شب_ غم تو

گر یہی رونا ہے شب_ غم تو
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں،

یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں،

گلاب آنکھیں ، شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لا جواب آنکھیں

عجیب تھا گفتگو کا عالم
سوال کوئی ، جواب آنکھیں

کبھی چھپتی ہیں راز دِل كے
کبھی ہیں دِل کی کتاب آنکھیں

ﺟﺐ ﭼﺎﮨﺎ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﭘﮩﻨﯿﮟ ، ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭼﺎﮨﺎ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ

ﺟﺐ ﭼﺎﮨﺎ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﭘﮩﻨﯿﮟ ، ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭼﺎﮨﺎ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﺟﻮﮌﺍ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ

جب زمیں تمہیں تنگ لگے


جب زمیں تمہیں تنگ لگے
تو آسمان کی جانب دیکھن
ا نم أنکھوں سے مسکرانا اور کہنا
اچھا تو ایسے راضی____؟؟
ٹھیک میں بھی ایسے ہی راضی

اس کی چپ کی بھی لاکھ تفسیریں

اس کی چپ کی بھی لاکھ تفسیریں
میرا سارا کلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے معنی

یہ منظر ہو یہ فرصت ہو

یہ منظر ہو یہ فرصت ہو
ہم باتیں کریں اتنی کے سورج تھک کے ڈھل جائے

بہتے دریا کی موج سے پوچھو

بہتے دریا کی موج سے پوچھو
عاشقی چشمِ “ تَر کا میلہ ہے

اِتنا مانوُس ھُوں سنّاٹے سے

اِتنا مانوُس ھُوں سنّاٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ھے

یہ خنک رت ہے یہ سال کا پہلا لمحہ

یہ خنک رت ہے یہ سال کا پہلا لمحہ
! دل کی خواہش ہے کہ،محسن، کوئی یاد آئے

تیری یادیں بھی __لاﮈلی ہیں بہت

تیری یادیں بھی __لاﮈلی ہیں بہت
ساتھ سوتی ہیں ساتھ أٹھتی ہیں

‏دکھ جنازے نہیں ھوا کرتے

‏دکھ جنازے نہیں ھوا کرتے
دوسرے کب انہیں اٹھاتے ھیں

میں نے کروٹ بدل کے دیکھا ھے

میں نے کروٹ بدل کے دیکھا ھے
یاد تم اس طرف بھی آتے ھو

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو


پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو

رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو

اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہوگئی
کیوں کر مٹاؤں دل سےترے غم کی چھاپ کو

کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست
رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو

تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیبؔ
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو

تم گزرو اور وقت نہ ٹھہرے, ایسا تھوڑی ھو سکتا ہے


تم گزرو اور وقت نہ ٹھہرے, ایسا تھوڑی ھو سکتا ہے
یاد آؤ اور درد نہ بَھڑکے، ایسا تھوڑی ھو سکتا ھے

صبر کِیا ھے، شُکر کِیا ھے، راضی ھو کر دیکھ لیا ھے
لیکن دل کو چین آ جائے، ایسا تھوڑی ھو سکتا ھے

تَرکِ محبّت کر لینے سے تَرکِ محبّت ھو بھی جائے
کوئی اُسے جا کر سمجھائے، ایسا تھوڑی ھو سکتا ھے

گُذرا لمحہ گُزر گیا ھے، اُس پر اَشک بہانا کیسا
مُٹھی میں پانی آ جائے، ایسا تھوڑی ھو سکتا ھے

پہلے جیسا نہیں ھے کُچھ بھی، اِس پہ تعجب کرنا کیسا
دھوُپ ڈھلے اور رنگ نہ بدلے، ایسا تھوڑی ھو سکتا ھے

دل کے صحرا میں ، کوئی آس کا جگنو بھی نہیں


دل کے صحرا میں ، کوئی آس کا جگنو بھی نہیں
اتنا رویا ھُوں ، کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں

قصۂ درد لیے پھرتی ھے ، گلشن کی ھَوا
میرے دامن میں ، تیرے پیار کی خوشبو بھی نہیں

چھِن گیا میری نگاھوں سے بھی ، احساسِ جمال
تیری تصویر میں ، پہلا سا وہ جادو بھی نہیں

دل وہ کمبخت کہ ، دھڑکے ھی چلا جاتا ھے
یہ الگ بات کہ ، تُو زینتِ پہلو بھی نہیں

یہ عجب راہ گزر ھے ، کہ ھیں چٹانیں تو بہت
اور سہارے کو ، تیری یاد کے بازو بھی نہیں