پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہوگئی
کیوں کر مٹاؤں دل سےترے غم کی چھاپ کو
کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست
رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو
تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیبؔ
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو