تم جو ہنستی ہو تو پھولوں کی ادا لگتی ہو
اور چلتی ہو تو اک بعد صباء لگتی ہو
دونوں ہاتھوں میں چھپا لیتی ہو اپنا چہرہ
مشرقی حور ہو ، دلہن کی حیا لگتی ہو
کچھ نا کہنا میرے کاندھے پہ جھکا کر سر کو
کتنی معصوم ہو ، تصویر وفا لگتی ہو
بات کرتی ہو تو ساگر سے خنک جاتے ہیں
لہر کا گیت ہو ، کوئل کی صدا لگتی ہو
کس طرف جاؤگی زلفوں کے یہ بادل لے کر ؟
آج مچلی ہوئی ساون کی گھٹا لگتی ہو
تم جسے دیکھ لو ، پینے کی ضرورت کیا ہے ؟
زندگی بھر جو رہے ، ایسا نشہ لگتی ہو
میں نے محسوس کیا تم سے دو باتیں کر کے
تم زمانے مین زمانے سے جدا لگتی ہو . . .